Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Who is khair ‎ud ‎Din ‎Pasha ‎Barbarbossa ‎| ‏خیر الدین پاشا ‏باربوسی ‏کون ‏تھا

دوستوں سب سے پہلے آپ کو بتاتے جائے کہ باربورس ڈرامہ  آنے سے پہلے ہی دنیا بھر میں سپر ہٹ ہو گیا ہے ہر کوئی اس کے بخار میں مبتلا ہو گیا ہے پر لچھ لوگ باربورس کے بارے میں نہیں جانتے کہ یہ ہماری کونسی داستان ہے کیا یہ اصلی ہے یا ایک فرضی تو سب سے پہلے تو یہ اصل کہانی پر مبنی ڈرامہ ہے جس میں مسلمانوں بہادروں کے غظیم کارنامے دکھائے جائے گئے
دوستوں باربورسا تین بہادر دوستوں کی غظیم داستان ہے جس میں تین دوستوں نے کیسے کفار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا
تو جب کفار نے مسلمانوں پر ناقابل بیاں ظلم کیے تو مسلمانوں کے پاس کوئی راستہ نہ بچا تھا سوائے موت کے تو اس وقت خیر الدین پاشا باربورسا نے بہادری سے مسلمانوں کو بچایا

 دوستو ترک خلافت عثمانیہ میں کئی عظیم بہادر گزرے ہیں ان میں ایک خیر الدین پاشا باربروسا بھی ہیں  دوستوں باربورسا کو اپنی زندگی میں سمندر کا بیٹا کہلاتا تھا کیونکہ یہ سمندر کا ہر ایک راستہ جانتا تھا خیرالدین اپنی بہادری اور غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے بحیرہ روم کے سمندروں میں خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا جب باربورسا نے افریقی سمندروں میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ترک سلطنت نے باقاعدہ طور پر ملک کی بحریہ کی کمانڈر کی حیثیت دی گئی
چار بھائیوں کی کہانی 

دوستو پندرہویں صدی عیسوی میں یونان کے ایک جزیرے میں یعقوب کے نام کا ایک مسلمان ترک پیدا ہوا اور پھر اس کے چار بیٹے تھے عروج، خضر، الیاس اور اسحاق  جوکہ سب بہت بہادر تھے ان میں سے ہر عروج سب سے بڑا بیٹا تھا ان کا کام تجارتی جہازوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بحفاظت پہنچانا ہوتا تاکہ سمندرء لٹیروں سامان نہ لوٹ لیں اور نہ ہی کوئی نقصان پہنچا سکےتو ان کی بہادری کی وجہ سے ہی تھوڑے ہی عرصے میں طاقت یہ ور بن گئے کہ یہ بحیرہ روم کے کئی جزیروں پر قابض ہو گئے تو ان کی ایک عادت تھی کہ یہ صورتحال کے مطابق اپنے جہازوں پر اس سیاست کا جھنڈا لہراتے تھے جو یونان کے جزیروں پر سب سے طاقتور ہوتی تھی  ایک دن یونان کے ایک جزیرے رہوڈز کی فوج نے ان چاروں بھائیوں کے قافلے پر حملہ کر دیا فوج کی تعداد اتنی زیادہ تھی اگر یہ ان کے ساتھ لڑتے بھی نچ نہ سکتے تھے اسی لیے اس حملے میں خضراور اسماعیل بھاگنا ہی مناسب سمجھا پر اس سے پہلے ہی اسحاق قتل اور عروج گرفتار ہوگیا دوستوں عروج جو تھوڑے ہی عرصہ میں روڈز کی فوج سے کسی نہ کسی برح بچ کر مصر پہنچ گیا اور وہاں مملوک کی حکومت تھی تو دوستوں عروج نے وہاں بھی اپنی بہادری دکھائی اور پھر اپنی بہادری شہرت کے بل بوتے پر مملوک سلطنت کے سلطان محمد غوری سے ایک بڑا بحری جہاز حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اس نے دوبارہ اپنے بھائی اسماعیل اور خضر کو اکٹھا کیا اور ان کے ساتھ مل کر اپنے نئے بحری جہاز کے ذریعے بحیرہ روم کے ان جزائر پر حملہ شروع کر دیا جہاں عیسائی ریاستیں قائم تھی کیونکہ دوستوں اندلس کے مسلمان پر عیسائی حکومت کے ظلم  جاری  تھا یہ بھائی بڑی ہی سمجھداری اور بہادری کے ساتھ  ساتھ چھوٹی چھوٹی عیسائی ریاستوں کو فتح کرنے میں کامیاب ہوتے رہے ان تینوں بھائیوں کو شہرت 504 سے پندرہ سو دس میں اس وقت ملی جب انہوں نے سکوت غرناطہ کے بعد مسلمان مہاجرین کو ہسپانیہ سے شمالی افریقہ حفاظت پہنچایا تھا کیونکہ ان کے علاوہ کوئی بھی نہ تھا جو یہ کام پر پاتا دوستوں سکوت  تاریخ اسلام میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے بہت مشہور ہے یہ تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جس دن اندلس کی سرزمین میں مسلمان حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا وہ یورپ جہاں آٹھ سو سال تک مسلمانوں نے حکومت کی وہ آپ ان سے چھن چکا تھا مسلمانوں کے ساتھ سپین میں انتہائی انسانیت سوز سلوک کیا گیا تو اس وقت موت کے سوا کو راستہ نہ تھا اگر تھا بھی تو کسی دوسری جگہ ہجرت کرنا جو بہت ہی مشکل تھا تو پھر اس حالت میں واحد راستہ شمالی افریکا کا ساحل تھا لیکن درمیان میں سمندر ہونے کی وجہ سے یہ سہارا بھی ختم ہوتا ہوا نظر آرہا تھا لوٹے پٹے اور بے گھر مسلمانوں کے لیے یہ سمندر عبور کرنا بہت مشکل تھی صرف ترک ہی وہ قوم تھی جو ان  مسلمانوں کو اندلس سے شمالی افریقہ میں منتقل کر سکتی تھی چنانچہ اس مسئلہ کے حل کے لیے خیر الدین باربروسا نے اپنی خدمات پیش کر دی 1504 سے 1510 تک مسلسل مسلمانوں کو اندلس سے شمالی افریقہ تک باحفاظت پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیا اس عرصے می ستر ہزار مسلمانوں نے ان کی کوششوں سے ہجرت کرنے میں کامیاب ہوگئے اسلامی تاریخ کے مطابق یہ تینوں بھائیوں کی بہادری کا بہت بڑا کارنامہ تھا دوستوں ان بھائیوں کے چہرے پر سرخ داڑھیاں تھی اور سرخ داڑھی کی نسبت کی وجہ سے یہ تینوں بھائی عروج باربورسا اسخاق باربورسا اور خضر باربورسا کے نام سے مشہور ہوگئے 1516 میں عروج باربورسا نے بحیرہ روم کے جزیرے پر قبضہ کر کے  سلطنت عثمانیہ کے ماتحت آگے تو بابا عروجِ کے ساحل پر موجود تمام علاقے کو فتح کرنا چاہتے تھے لیکن پندرہ سو اٹھارہ میں عثمانیوں نے صلیبی اتحاد قائم کرکے ان تینوں بھائیوں کو بہت بری طرح مشکل میں ڈال کر رکھ دیا یہ اتنی خونریزی کی جنگ تھی کہ اتحادی فوج سے جنگ کے دوران بو عروج اور اسحاق شہید ہوگئے ان کی شہادت کے بعد خضر بربورسا  نے اپنے بھائیوں کے مشن کو جاری رکھا اور خضر باربورسا اکیلا ہونے کے باوجود اپنی چھوٹی سی فوج کے ساتھ ایسا جہاد کرتے رہے کہ آپ نے پندرہ سو اٹھارہ سے لے کر پندرہ سو بیس تک عیسائی ریاستوں کی اینٹ بجا کر رکھ دی تو آپ کو یہ وڈیو کیسی لگی

Post a Comment

0 Comments